The invention of the pencil
It is not possible to say with certainty when the first writing instrument was invented, but it is a long time ago. A discovery in 1564 in Borrowdale, England, is considered the birthplace of the modern pencil. According to the story, an unknown stranger saw some shiny black material sticking to the roots of a broken tree. It turns out that something can be written with the help of this material. The discovery caused a sensation. The substance was graphite, a type of carbon. People called it "black lead". Making graphite for real use was a problem because it is so soft and full in nature. It needed a holder. Initially, pieces of graphite were wrapped in strips. Later it was thrown into the hollowed-out branches of wood. Although it took a lot of hard work, this method proved to be very useful and the earliest form of pencil came into being. Making pencils The formal patented process was introduced in 1795 by the French chemist Nicolas Conte. He thought of pouring a solution of graphite and baked clay into a wooden case. The earliest pencils made in this way were cylindrical. A mixture of clay and graphite (lead) was inserted into the wood and a thin lid was placed on top. The process devised by Conte made it possible to make a variety of hard or soft coins. It depended on how the graphite was baked. This was very useful for artists, writers and cartographers. Although large-scale production of pencils took place in Europe, the war in Europe halted exports and forced the United States to consider making its own pencils. So William Monroe, a cupboard maker in Concord, Massachusetts, made American wooden pencils in 1812. Looks like he did a great job. He sought help from people in the past Had successfully marketed the devices. Benjamin Franklin, for example, advertised the sale of pencils in the Pennsylvania Gazette in 1729, and George Washington (in 1762) surveyed the Ohio area with a pencil. When large-scale production of pencils began for the first time, they were not painted so that the quality of the wood could be seen. Today, millions of pencils are made every year. They are available in almost every color and every category. There are also pencils that can write on any surface. It seems to be used in every sphere of life. The history of Pan is also quite interesting. The earliest examples of writing on paper with a pen are found in ancient Egypt. The scribes of the Pharaohs and the high priests used to write with reed pens dipped in ink. Over time, pens became sharper tools. The use of wings for writing in the sixteenth century greatly improved and facilitated. He seldom broke while writing Were and their tip was also strong. Three hundred years later, metal nibs began to be used in the mid-nineteenth century, but the writer still repeatedly dipped the pen into the medicine. Let's say that the pens of the nineteenth century were in a way like the reed pens of thousands of years ago. In the case of the pen, like other inventions, some people thought of solving the problem. In 1884, insurance broker Lewis Waterman was one such person. He was tired of repeatedly dipping the pan into the medicine. Previously, the reason for not storing ink inside the pan was that it was difficult to control the flow of ink. Waterman came up with a solution. He came to the conclusion that in order to keep the pressure on the flow of ink, it should be reduced and replaced by air. He made two or three paths so that air and ink could move together. Later roller balls and ball points were made. There is a big difference between nib pens and ball points. Ballpoint pen The pressure of the ink is in the direction of gravity (ie it comes towards the paper while writing). Roller ball pens are a bit different. The first difference is that they need to be covered to prevent them from drying out. Second, the hair does not actually bring the ink to the paper, but rather it controls the flow of the ink and reduces friction. Also the ink of the ball pen is thicker than that of the nib pen. The problem of ink leaking from ball points has not been solved yet. This success may be achieved in the near future. The problem could not be solved. This success may be achieved in the near future. The problem could not be solved. This success may be achieved in the near future.
پنسل کی ایجاد
اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ لکھنے کا پہلا آلہ کب ایجاد ہوا، مگر یہ بہت پہلے کی بات ہے۔ Borrowdale ، انگلینڈ میں 1564ء میں ایک دریافت کو جدید دور کی پنسل کا مقام پیدائش خیال کیا جاتا ہے۔ کہانی کے مطابق کسی نامعلوم اجنبی نے ایک ٹوٹے ہوئے درخت کی جڑوں کے ساتھ چپکا ہواچمکدار کالے رنگ کا کچھ مواد دیکھا۔ پتہ چلا کہ اس مواد کی مدد سے کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ اس دریافت نے سنسنی پھیلا دی۔ یہ مادہ گریفائٹ تھا جو کاربن کی ایک قسم ہے۔ لوگوں نے اسے ’’کالا سیسہ‘‘ کا نام دیا۔ حقیقی استعمال کے لیے گریفائٹ بنانا ایک مسئلہ تھا کیونکہ یہ فطری شکل میں بہت نرم اور بُھربھرا ہوتا ہے۔ اس کے لیے ایک ہولڈر کی ضرورت تھی۔ ابتدأ میں گریفائٹ کے ٹکڑوں کو پٹی میں لپیٹ لیا جاتا تھا۔ بعد میں اسے لکڑی کی کھوکھلی کی ہوئی شاخوں کے اندر ڈالا جانے لگا۔ اگرچہ اس کام میں بہت محنت لگتی تھی، مگر یہ طریقہ بہت مفید ثابت ہوا اور پنسل کی ابتدائی صورت وجود میں آئی۔ پنسلیں بنانے کا باقاعدہ پیٹنٹ یافتہ عمل 1795ء میں فرانسیسی کیمیا دان نکولاس کونتے نے متعارف کروایا۔ اس نے گریفائٹ اور پکائی ہوئی مٹی کا ایک محلول لکڑی کے کیس میں ڈالنے کا سوچا۔ اس طریقے سے بنائی جانے و الی ابتدائی پنسلیں سلنڈر نما تھیں۔ مٹی اور گریفائٹ کا مرکب (lead) لکڑی کے اندر ڈالنے کے بعد اوپر باریک سا ڈھکن لگا دیا جاتا۔ کونتے کے وضع کردہ عمل کے تحت مختلف قسم کے سخت یا نرم سِکے بنانا ممکن ہو گیا۔ اس کا انحصار اس بات پر تھا کہ گریفائٹ کو بھٹی میں کس طرح پکایا جاتا ہے۔ مصوروں، مصنفوں اور نقشہ نویسوں کے لیے یہ چیز بہت فائدہ مند تھی۔ اگرچہ پنسلوں کی و سیع پیمانے پر پروڈکشن یورپ میں ہوئی، لیکن یورپ میں جنگ کے باعث برآمدات رک جانے سے امریکہ کو اپنی پنسلیں بنانے کا سوچنا پڑا۔ لہٰذا کونکورڈ، میسا چوسٹس کے ایک الماریاں بنانے والے شخص ولیم منرو نے 1812ء میں لکڑی کی امریکی پنسلیں تیار کیں۔ لگتا ہے کہ اس نے ایک کام بالکل ٹھیک کیا۔ اس نے ایسے افراد سے مدد لی جو ماضی میں آلات کی کامیاب مارکیٹنگ کر چکے تھے۔ مثلاً بنجمن فرینکلن نے 1729ء میں ’’پنسلوانیا گزٹ‘‘ میں پنسلوں کی فروخت کا اشتہار دیا اور جارج واشنگٹن نے (1762 ء میں)ایک پنسل کے ساتھ اوہیو علاقے کا سروے کیا۔ پہلی مرتبہ پنسلوں کی وسیع پیمانے پر تیاری شروع ہوئی تو انہیں پینٹ نہیں کیا جاتا تھا تاکہ لکڑی کی کوالٹی نظر آتی رہے۔ آج کل ہر سال کروڑوں پنسلیں بنتی ہیں۔ وہ تقریباً ہر رنگ اور ہر کیٹیگری میں دستیاب ہیں۔ ایسی پنسلیں بھی ہیں جو کسی بھی سطح پر لکھ سکتی ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں اس کا استعمال ہوتا نظر آتا ہے۔ پین کی تاریخ بھی کافی دلچسپ ہے۔ پین کے ساتھ کاغذ پر لکھنے کی اولین مثال قدیم مصر میں ملتی ہے۔ فراعین کے منشی اور اعلیٰ پروہت سرکنڈے کی قلموں کو سیاہی میں ڈبو کر لکھا کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پینوں نے تیز نوکدار آلات کی صورت اختیار کر لی۔ سولہویں صدی میں لکھنے کے لیے پروں کے استعمال نے کافی بہتری اور سہولت پیدا کی۔ وہ لکھنے کے دوران بہت کم ٹوٹتے تھے اور ان کی نوک بھی مضبوط تھی۔ تین سو سال بعد ، انیسویں صدی کے وسط میں دھاتی نِب استعمال ہونے لگی، لیکن لکھنے والا اب بھی پین کو بار بار دوات میں ڈبوتا تھا۔ یوں کہہ لیں کہ انیسویں صدی کے پین ایک طرح سے ہزاروں سال پہلے کی سرکنڈے کی قلم جیسے ہی تھے۔ دیگر ایجادات کی طرح پین کے معاملے میں بھی کچھ لوگوں نے مسئلہ حل کرنے کا سوچا۔ 1884ء میں انشورنس بروکر لیوس واٹرمین بھی ایسا ہی شخص تھا۔ وہ پین کو بار بار دوات میں ڈبونے سے تنگ آ گیا تھا۔ قبل ازیں پین کے اندر سیاہی کا ذخیرہ نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ سیاہی کا بہائو کنٹرول کرنا مشکل تھا۔ واٹر مین نے ایک حل نکالا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ سیاہی کے بہائو پر دبائو رکھنے کے لیے کم ہونے و الی سیاہی کی جگہ ہوا کو لے لینی چاہیے۔ اس نے دو یا تین راستے بنائے تاکہ ہوا اور سیاہی ایک ساتھ آگے بڑھ سکیں۔ بعد میں رولر بالز اور بال پوائنٹس بنائے گئے۔ نِب والے پینوں اور بال پوائنٹس کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ بال پوائنٹ پین میں سیاہی کا دبائو کششِ ثقل والی سمت میں ہوتا ہے (یعنی لکھتے وقت وہ کاغذ کی طرف آتی ہے)۔ رولر بال پین کچھ مختلف ہیں۔ پہلا فرق تو یہ ہے کہ انہیں خشک ہونے سے بچانے کے لیے ڈھکن لگانا ضروری ہے۔ دوسرے یہ کہ بال درحقیقت سیاہی کو کاغذ تک نہیں لاتا، بلکہ وہ سیاہی کے بہائو کو کنٹرول اور رگڑ کو کم کرتا ہے۔ نیز بال پین کی سیاہی بھی نب والے پین کی نسبت گاڑھی ہوتی ہے۔ ابھی تک بال پوائنٹس سے سیاہی لِیک ہونے کا مسئلہ حل نہیں کیا جا سکا۔ شاید مستقبل قریب میں یہ کامیابی بھی مل جائے۔
No comments: