Begging
Begging does not end poverty!
"We took two teenagers
One was sent to beg in old clothes
And sent to sell other things,
Eight hundred begging children in the evening
And the child laborer earned one and a half hundred rupees.
The result of this social experience is clear.
In fact, as a nation, we encourage begging
And discourage hard labor.
Hotel waiters, greengrocers and small-scale workers count every penny
And by giving ten to twenty or even one hundred and fifty rupees to the beggars, they think that heaven has become obligatory.
In that case, they should only feed the beggars
And give to the wage earners their due.
Our teacher says that if you give a beggar one lakh rupees in cash, he will take him to a safe place and start begging again the next day.
On the contrary
If you help a laborer or a white man
He will do his job in a much better way by fulfilling his legitimate need.
Why not keep a jar at home? Keep folding the coins allocated for begging into it.
When the appropriate amount is collected, make a note of it and give it to a person who is not a beggar.
Millions of students, patients, laborers and women in this country are in need of a single penny.
Even a single rupee can be enough to help you cross the bridge straight if you help the right deserving.
Remember!
Begging does not end begging, it increases it.
Give alms
With planning and care,
In this way the world can change and so can the Hereafter.
The rest is up to you. "
"It's a matter of thinking ... thinking again and again."
Dr. Abdul Waheed Qureshi
بھیک
بھیک دینے سے غریبی ختم نہیں ہوتی!
"ہم نے دو نوعمر بچوں کو لیا
ایک کو پرانے کپڑے پہنا کر بھیک مانگنے بھیجا
اور دوسرے کو مختلف چیزیں دے کر فروخت کرنے بھیجا،
شام کو بھکاری بچہ آٹھ سو
اور مزدور بچہ ڈیڑھ سو روپے کما کر لایا.
اس سماجی تجربے کا نتیجہ واضح ہے۔
دراصل بحیثیت قوم، ہم بھیک کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں
اور محنت مزدوری کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں.
ہوٹل کے ویٹر، سبزی فروش اور چھوٹی سطح کے محنت کشوں کے ساتھ ایک ایک پائی کا حساب کرتے ہیں
اور بھکاریوں کو دس بیس بلکہ سو پچاس روپے دے کر سمجھتے ہیں کہ جنت واجب ہوگئی.
ہونا تو یہ چاہئے کہ مانگنے والوں کو صرف کھانا کھلائیں
اور مزدوری کرنے والوں کو ان کے حق سے زیادہ دیں.
ہمارے استاد فرماتے ہیں کہ بھکاری کو اگر آپ ایک لاکھ روپے نقد دے دیں تو وہ اس کو محفوظ مقام پر پہنچا کر اگلے دن پھر سے بھیک مانگنا شروع کر دیتا ہے.
اس کے برعکس
اگر آپ کسی مزدور یا سفید پوش آدمی کی مدد کریں تو
وہ اپنی جائز ضرورت پوری کرکے زیادہ بہتر انداز سے اپنی مزدوری کرے گا.
کیوں نہ گھر میں ایک مرتبان رکھیں؟ بھیک کے لئے مختص سکے اس میں ڈالتے رہیں.
مناسب رقم جمع ہو جائے تو اس کے نوٹ بنا کر ایسے آدمی کو دیں جو بھکاری نہیں.
اس ملک میں لاکھوں طالب علم، مریض، مزدور اور خواتین ایک ایک ٹکے کے محتاج ہیں.
صحیح مستحق کی مدد کریں تو ایک روپیہ بھی آپ کو پل صراط پار کرنے کے لئے کافی ہو سکتا ہے.
یاد رکھئے!
بھیک دینے سے گداگری ختم نہیں ہوتی،بلکہ بڑھتی ہے.
خیرات دیں،
منصوبہ بندی اور احتیاط کے ساتھ،
اس طرح دنیا بھی بدل سکتی ہے اور آخرت بھی.
باقی مرضی آپ کی"
" ہے سوچنے کی بات ۔ ۔ باربار سوچ "
ڈاکٹر عبدالوحید قریشی
No comments: