Interesting and weird
Matches are, of course, an 'art form' and a necessity for almost every home in the world. An interesting article on how matches were invented.
This is the incident of 1826. John Walker (British pharmacist) was mixing a few chemicals in a vessel through a bag. He noticed that the top of the bag had become like a dried ball. He inadvertently tried to remove the dry matter by rubbing the end of the bag, then suddenly a fire broke out.
That's exactly how matches were invented. John Walker sold the first matches in a bookstore in his area. He named the matches "Fractional Lights". The bags were up to three inches long. On one side of the box was a rig, on which the oils were rubbed and burned. John Walker was not interested in getting his invention patented. Samuel Jones copied the matches. She named her match "Lucy Fur". Their match bags were small. His box was also small and easy to carry.
The first mention of something like matches in history is found in a book written in China. The title of the book was "Mention of Extraordinary and Unique Things" and it was written by Tao Gu. This book was written around 950. Sulfur was used to light fires, but these oils could not be ignited by rubbing.
The French chemist Jean Chansell invented the first matches in 1805 with sugar and potassium chlorite applied to the ends of the oils. The tip was dipped in concentrated sulfuric acid and burned. It was dangerous to burn matchboxes made by Jean Chancel. The mixture of chemicals produced a yellow, foul-smelling gas called chlorine dioxide, which exploded when touched by anything.
Nowadays matches are made of red phosphorus. Red phosphorus is not toxic. It was discovered by Johann Edward Lindstrom. Diamond Match Company was the first company to sell safety matches in the United States. By buying the rights from it, other match-making companies started making and selling matches.
دلچسپ اور عجیب
ماچس بلاشبہ ایک 'فن پارا' ہی ہے اور دنیا میں تقریبًا ہر گھر کی ضرورت بھی۔ ماچس کیسے ایجاد ہوئی ایک دلچسپ تحریر۔
یہ 1826ء کا واقعہ ہے۔ جان واکر (برطانوی ادویات ساز) چند کیمیائی مادوں کو ایک برتن میں ایک تیلی کے ذریعے آپس میں ملا رہے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ تیلی کے سرے پر ایک سوکھا ہوا گولا سا بن گیا ہے۔ انہوں نے غیر ارادی طور سے تیلی کے سرے کو رگڑ کر سوکھا ہوا مادہ اتارنے کی کوشش کی تو ایک دم آگ جل اٹھی۔
اس طرح بالکل اتفاقاً ماچس ایجاد ہو گئی۔ جان واکر نے پہلی ماچس اپنے علاقے میں کتابوں کی ایک دکان میں بیچی۔انہوں نے اس ماچس کا نام ’’فرکشن لائٹس‘‘ رکھا تھا۔ تِیلیاں تین انچ تک لمبی تھیں۔ ڈبیا کی ایک طرف ریگ مال لگا ہوا تھا جس پر تیلیوں کو رگڑ کر جلایا جاتا تھا۔ جان واکر کو اپنی ایجاد پیٹینٹ (Patent)کروانے سے دلچسپی نہیں تھی۔ سیموئل جونز نے ماچس کی نقل بنائی۔ انہوں نے اپنی ماچس کا نام ’’لوسی فر‘‘ رکھا۔ ان کی ماچس کی تیلیاں چھوٹی تھیں۔ ان کی ڈبیا بھی چھوٹی تھی جسے ساتھ رکھنا آسان تھا۔
تاریخ میں ماچس جیسی کسی چیز کا پہلا تذکرہ چین میں لکھی گی ایک کتاب میں ملتا ہے۔ اس کتاب کا عنوان ’’غیر دنیاوی اور انوکھی چیزوں کا تذکرہ‘‘ تھا اور اسے تاؤ گو نے لکھا تھا۔ یہ کتاب اندازاً 950ء میں لکھی گئی تھی۔ آگ جلانے کے لیے سلفر استعمال کیا جاتا تھا لیکن ان تیلیوں کو رگڑ کر آگ نہیں جلائی جا سکتی تھی۔
فرانسیسی کیمیا داں ژاں چینسل نے 1805ء میں پہلی ایسی ماچس ایجاد کی جس کی تیلیوں کے سرے پر چینی اور پوٹاشیم کلوریٹ لگایا جاتا تھا۔ اس سرے کو مرتکز سلفیورک تیزاب میں ڈبو کر جلایا جاتا تھا۔ ژاں چینسل کی بنائی ہوئی ماچس کی تیلیاں جلانا خطرناک تھا۔ کیمیائی مادوں کا آمیزہ کلورین ڈائی آکسائیڈ نامی پیلے رنگ کی بدبودار گیس پیدا کرتا تھا، جو کسی بھی چیز سے چھونے پر بھک کر کے پھٹ جاتی تھی۔
آج کل ماچسیں سرخ فاسفورس سے بنائیں جاتی ہیں۔سرخ فاسفورس زہریلی نہیں ہوتی۔ اسے جوہان ایڈورڈ لنڈسٹروم نے دریافت کیا تھا۔ امریکہ میں سیفٹی ماچس فرخت کرنے والی پہلی کمپنی ڈائمنڈ میچ کمپنی تھی۔ اس سے حقوق خرید کر دوسری ماچس ساز کمپنیوں نے ماچسیں بنانا اور بیچنا شروع کیا تھا۔
No comments: